کبھی یاد آئے تو پوچھنا

کبھی یاد آئے تو پوچھنا
کبھی اپنی خلوت شام سے

کسے عشق تھا تیری زات سے
کسے پیار تھاترے نام سے

زرا یاد کرو کہ وہ کون تھا
جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا

وہ جو جی اٹھا ترے نام سے
وہ جو مر مٹا ترے نام سے

ہمیں بے رخی کا نہیں گلہ
کہ یہی وفاؤں کاھے صلہ

مگر ایسا جرم تھا کونسا
گئے ہم دعا و سلام سے

نہ کبھی وصال کی چاہ کی
نہ کبھی فراق میں آہ کی

کہ میرا طریقہء بندگی
ھے جدا طریقہء عام سے

No response to “کبھی یاد آئے تو پوچھنا”

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Flag counter

free counters