اُسے صدیوں سے کسی بہانے کی تلاش تھی

اُسے نفرت تھی مجھ سے میری محفل سے وہ اُٹھ کہ چلا گیا
شاید اُس کو بھی معلوم تھا ہم نطروں سے اپنا بنا لیتے ہیں ۔
><><<>
اُس نے ہمارے زخموں کا یوں علاج کیا فراز
مرہم بھی لگایا تو کانٹوں کی نوک سے ۔
<><><>
وہ شخص تو ایک چھوٹی سی بات یوں روٹھ کہ چل دیا ناصر
جیسے اُسے صدیوں سے کسی بہانے کی تلاش تھی ۔
<><><>
آج تو اُس کی یاد میں ایسے کھوئے فراز جیسے
کسی تنہا کشتی کو سمندر میں شام ہو جائے ۔
<><><>
تُم تعلق توڑنے کا کہیں ذکر نہ کرنا فراز
میں لوگوں سے کہہ دوں گا کہ اُسے فرصت نہیں ملتی ۔

No response to “اُسے صدیوں سے کسی بہانے کی تلاش تھی”

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Flag counter

free counters