مجھ کو پھانسی چڑھا دو مٹا دو مجھے

مجھ کو پھانسی چڑھا دو مٹا دو مجھے
قتل گاہوں میں زندہ جلا دو مجھے
میں ہوں منصور سولی چڑھا دو مجھے
اس سے بڑھ کر بھی ہے تو سزا دو مجھے
ہاں میں غدار ہوں ایسے جمہور کا
غم کے منشور کا کالے دستور کا
پتھروں کی طرح کیسے زندہ رہوں
ظلم سہتا رہوں منہ سے کچھ نہ کہوں
قتل انسان کی بات کیسے کروں
ایسے دستور کے ساتھ کیسے چلوں
ہاں میں غدار ہوں ایسے جمہور کا
غم کے منشور کا کالے دستور کا
مجھ کو مارا گیا مجھ کو پیٹا گیا
مجھ کو سڑکوں پہ جبرا گھسیٹا گیا
کیا خطا تھی میری کب یہ پوچھا گیا
مجھ کو باغی نصابوں میں لکھا گیا
ہاں میں غدار ہوں ایسے جمہور کا
غم کے منشور کا کالے دستور کا
پھول کلیوں کی چادر کہاں کھو گئی
باد ظلمت چمن میں یہ کیا بو گئی
موسم گل میں طاری خزاں ہو کئی
لاشہ گل پہ دیکھو صبا رو گئ
یہاں میں غدار ہوں ایسے جمہور کا
غم کے منشور کا کالے دستور کا

No response to “مجھ کو پھانسی چڑھا دو مٹا دو مجھے”

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Flag counter

free counters