آؤ بچپن کو لوٹ چلیں


بہت سہانی تھیں وہ یادیں

پرانی ہو گئیں اب وہ باتیں

کہا تھا میں نے ہم نہ ملیں گے کبھی

تمھیں یاد نہ کریں گے کبھی

چھوڑ کر تمھیں جا رہا ہوں میں

بس ایسے ہی تمھیں ستا رہا ہوں میں

جب پوچھا کیا دیکھا تم نے مجھ پاگل میں

چھپا لیا تھا چہرہ تم نے آنچل میں

کیا گزری تھی اُس گھڑی تم پر

آفت سی تھی ٹوٹ پڑی تم پر

نکلے تھے تم میری تلاش میں رات کو

بھول نہ پاؤں گا اُن لمحات کو

بیٹھ کر تم نے اُسی ویران گلی میں

کچھ لکھا تھا اُس سنسان گلی میں

میں تمھیں مل نہ سکا تو تم رو دیئے

کسی خوابوں خیالوں میں کھو دیئے

جب آہٹ سنی میرے قدموں کی

سر سے گٹھڑی گر پڑی صدموں کی

جھلملا رہے تھے آنسو آنکھوں پہ

تھرتھراہٹ سی تھی ہونٹوں پہ

سہم گئے تھے تم میری بانہوں میں

اک درد سا تھا تیری آہوں میں

میری خطاؤں کو بھلا کر پیار کیا

کبھی نہ جدا ہونے کا اقرار کیا

آنسو نکلے تھے تمھارے بے بہا

گلے سے لپٹ کر ہمیں یوں کہا

بے رخی سے دنیا کو روک چلیں

وفاوؤں کا پیدا کر شوق چلیں

بابر جی اٹھو جٹاں دے کوٹ چلیں

آؤ بچپن کو لوٹ چلیں

own poetry; 03455260753

No response to “آؤ بچپن کو لوٹ چلیں”

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Flag counter

free counters