سنا ہے اس کے دیدار کو آئینے ترستے ہیں

کیا برا ہے کہ میں اقرار محبت کر لوں فراز
لوگ ویسے بھی تو کہتے ہیں گنہگار مجھے
۔
عجیب طرز سے گزری ہے زندگی اپنی فراز
دلوں پر راج کیا پھر بھی محبت کو ترستے رہے
۔
تم سے اگر کوئی پوچھ لے کہ میری اوقات کیا ہے
ہتھیلی پہ خاک رکھ کر پھونک مار دینا
۔
اب تو یہ حالت ہے کہ تنہائی سے تنگ آ کر فراز
خود ہی دروازے کی زنجیر ہلا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
sender:03455260753
۔
ہماری تڑپ تو کچھ بھی نہیں فراز
سنا ہے اس کے دیدار کو آئینے ترستے ہیں
۔
نہ دیکھ آسماں کو اتنی حسرت سے فراز
وہ ستارہ ٹوٹ گیا جس کی تجھے تلاش تھی
۔
اگر مجھ سے بچھڑنے کا نہیں ہے غم اسے محسن
تو پھر خاموش راتوں میں وہ اکثر جاگتا کیوں ہے
۔
ہجر کے ساحل پہ کس کے منتظر بیٹھے ہو تم وصی
اس سمندر سے بھلا کب لوٹی ہیں کشتیاں
۔
مجھے چھوڑنے کا فیصلہ تو روز کرتا ہے وہ شخص
مگر اس کا بس نہیں چلتا میری وفا کے سامنے

No response to “سنا ہے اس کے دیدار کو آئینے ترستے ہیں”

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Flag counter

free counters