اب تو کلیوں کے تبسم سے بھی ڈر جاتا ہوں فراز

اے قبرستان تیری آغوش میں اتنا سناٹا کیوں ہے
لوگ تو اپنی جان دے کر تجھے آباد کرتے ہیں
۔
کتنی عجیب ہے نیکیوں کی جستجو غالب
نماز بھی جلدی میں پڑھتے ہیں پھر سے گناہ کرنے کے لیے
۔
خزاؤں میں ہوتا ہے امتحاں وفاؤں کا محسن
جو ہوں شجر کو پیارے وہ پتے نہں گرتے
۔
مجھے چھوڑنے کا فیصلہ تو روز کرتا ہے وہ شخص
مگر اُس کا بس نہیں چلتا میری وفا کے سامنے
۔
اب تو کلیوں کے تبسم سے بھی ڈر جاتا ہوں فراز
مسکرا کر جو بھی ملا وہ زخم گہرا دے گیا۔۔۔۔۔
۔
ہماری ا پیاس کا انداز بھی الگ ہے فراز
کبھی دریاوؤں کو ٹھکراتے ہیں تو کبھی آنسو تک پی جاتے ہیں

No response to “اب تو کلیوں کے تبسم سے بھی ڈر جاتا ہوں فراز”

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Flag counter

free counters